اسلام کی حقیقت
:اسلام کے معنی
عربی زبان میں اطاعت اور فرماں برداری کے ہیں ۔ مذہب اسلام کا نام “اسلام” اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری ہے
:اسلام کی حقیقت
تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں سب ایک قاعدے اور قانون کی تابع ہیں ۔ چاند اور تارے سب ایک زبردست
قاعدے میں بندھے ہوئے ہیں جس کے خلاف اوہ بال برابر جننش نہیں کرسکتے۔ زمین اپنی خاص رفتار کے ساتھ گھوم رہی ہے
اس کے لیے جو وقت اور رفتار اور راستہ مقڑ کیا گیاہے اس میں ذرا برابر فرق نہیں آتا۔پانی اور ہوا ، روشنی اور حرارت، سب
ایک ہی ضابطہ کے پابند ہیں ۔
جمادات و نباتات اور حیوانات میں ہر ایک کے لیے جو قانون مقڑ ہے اسی کے مطابق یہ سب پیدا ہوتے ہیں ، بڑھتے ہیں اور
گھٹتے ہیں ، جیتے ہیں اور مرتے ہیں ۔خود انسان کی حالت پر بھی تم غور کروگے تو تم کو معلوم ہوگا کہ وہ بھی قانون قدرت کا
تابع ہے، جو قاعدہ اس کی پیدائش کے لیے مقڑھ کیاگيا ہے اس کے مطابق سانس لیتاہے، پانی اور غذا اور حرارت اور روشنی
حاصل کرتا ہے۔
اس کے دل کی حرکت، اس کے خون کی گردش، اس کے سانس کی آمد و رفت اسی ضابطے کی پابند ہے۔ اس کا دماغ، اس کا
معدہ ، اس کے پھیپھڑے، اس کے اعصاب اور عضلات، اس کے ہاتھ پاؤں ، زبان، آنکھیں ،کان اور ناک، غرض اس کے
جسم کا ایک ایک حصہ وہی کام کڑہاہے جو اس کے لیے مقڑ ہے۔ اور اسی طریقہ پر کام کڑہا ہے جو اس کو بتادیاگیا ہے۔
یہ زبردست قانون جس کی بندش میں بڑے بڑے سیاروں سے لے کر زمین کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ذرہ تک جکڑا ہوا ہے، ایک
بڑے حاکم کا بنایا ہوا قانو ہے۔ ساری کائنات اور کائنات کی ہرچیز اس حاکم کی مطیع اور فرماں بردار ہے، کیونکہ وہ اسی کے بنائے
ہوئے قانون کی اطاعت و فرماں برداری کڑہی ہے۔اس لحاظ سے ساری کائنات کامذہب اسلام ہے۔
کیونکہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ خدا کی اطاعت و فرماں برداری ہی کو اسلام کہتے ہیں ۔ سورج، چاند اور تارے سب مسلم
ہیں ۔ زمین بھی مسلم ہے ہوا اور پانی اور روشنی بھی مسلم ہیں ۔ درخت اور پتھر اور جانور بھی مسلم ہیں اور وہ انسان بھی جو
خدا کو نہیں پہچانتا اور خدا کا انکار کرتا ہے، جو خدا کے سوا اور دوسروں کو پوجتا ہے، جو خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتا ہے،
ہاں وہ بھی اپنی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے مسلم ہی ہے۔
کیونکہ اس کاپیدا ہونا ، زندہ رہنا اور مرنا سب کچھ خدائی قانون ہی کے ماتحت ہے۔اس کےتمام اعضاء اور اس کے جسم کے
ایک ایک رونگٹے کامذہب اسلام ہے۔کیونکہ وہ سب خدائی قانون کے مطابق بنتے اور بڑھتے اور حرکت کرتے ہیں ۔ حتی کہ اس
کی وہ زبان بھی اصل میں مسلم ہے جس سے وہ نادانی کے ساتھ شرک خدا کے سوا دوسروں کے سامنے جھکاتا ہے۔
اس کاوہ دل بھی فطرتاً مسلم ہے جس میں وہ بےعلمی کی وجہ سے خدا کے سوا دوسروں کی عزت اور محبت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ
سب چیزیں خدائی قانون کی فرماں بردار ہیں اور ان کی ہر جنبش خدا ہی کے قانون کے ماتحت ہوتی ہے۔
:اب ایک دوسرے پہلو سے دیکھو
انسان کی ایک حیثیت تو یہ ہے کہ وہ دیگر مخلوقات کی طرح قانون قدرت کے زبردست قاعدوں سے جکڑا ہواہے۔ اور ان کی
پابندی پر مجبور ہے دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ عقل رکھتا ہے۔ سوچنے اور سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ اور
اپنے اختیار سے ایک بات کو مانتا ہے، دوسری بات کو نہیں مانتا۔ ایک طریقہ کو پسند کرتا ہے، دوسرے طریقہ کو پسند نہیں کرتا۔
زندگی کے معاملات میں اپنے ارادے سے خود ایک ضابطہ کو بناتا ہے، یادوسروں کے بنائےضابطہ کواختیار کرتا ہے۔ اس حیثیت
میں وہ دنیا کی دوسری چیزوں کے مانند کسی مقڑ قانون کا پابند نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ اس کو اپنے خیال ، اپنی رائے اور عمل میں
انتخاب کی آزادی بخشی گئی ہے۔
:انسان کی زندگی میں یہ دو حیثیتیں الگ الگ پائی جاتی ہیں
پہلی حیثیت میں وہ دنیا کی تمام دوسری چیزوں کے ساتھ پیدائشی مسلم ہے اور مسلم ہونے پرمجبور ہے۔ جیسا کہ ابھی تم کو معلوم
ہوچکا ہے۔
دوسرےی حیثیت میں مسلم ہونا یا نہ ہونا اس کے اختیار میں ہے اوراسی اختیار کی بنا پر انسان دو طبقوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔
ایک انسان وہ ہے جو اپنے خالق کو پہچانتا ہے۔ اس کو اپنا آقا اور مالک تسلیم کرتا ہے۔ اور اپنی زندگی کے اختیاری کاموں میں
بھی اس کے پسند کئے ہوئے قانون کی فرماں برداری کرتا ہے۔
یہ پورا مسلم ہے، اس کا اسلام مکمل ہوگیا۔ کیونکہ اب اس کی زندگی سراسر اسلام ہے۔ اب وہ جان بوجھ کر بھی اسی کافرماں
بردار بن گیا، جس کی فرماں برداری بغیر جانے بوجھے کڑہا تھا۔
اب وہ اپنے ارادے سے بھی اسی خدا کامطیع ہے جس کا مطیع وہ بلا ارادہ تھا۔ اب اس کا علم سچا ہے کیونکہ وہ اس خدا کو جان
گیا،جس نے اس کو جاننے اور علم حاصل کرنے کی قوت دی ہے۔اب اس کی عقل اور اس کی رائے درست ہے کیونکہ اس نے
سوچ سمجھ کر اس خدا کی اطاعت کا فیصلہ کیا جس نے اسے سوچنے سمجھنے کی اور رائے قائم کرنے کی قابلیت بخشی ہے۔
اب اس کی زبان صادق ہے ، کیونکہ وہ اسی خدا کا اقرار کڑہی ہے جس نے اس کو بولنے کی قوت عطا کی ہے۔ اب اس کی
ساری زندگی میں راستی ہی راستی ہے، کیونکہ وہ اختیار و بے اختیاری دونوں حالتوں میں خدا کے قانون کا پابند ہے۔
اب ساری کائنات سے اس کی آشتی ہوگئی، کیونکہ کائنات کی ساری چیزیں جس کی بندگی کڑہی ہیں ، اسی کی بندگی وہ بھی کڑہا ہے۔
اب وہ زمین پر خدا کا خلیفہ نائب ہے ساری دنیا اس کی ہے اور وہ خدا کا ہے۔
0 Comments