window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);} gtag('js', new Date()); gtag('config', 'G-V5HY947VFK'); The Reality Of Prophethood - پیغمبری کی حقیقت

Header Display

The Reality Of Prophethood - پیغمبری کی حقیقت

پیغمبری کی حقیقت


 پیغمبری کی حقیقت


 خدا کی اطاعت کے لیے خدا کی ذات و صفات اور اس کے پسندیدہ طریقے اور آخرت کی جزا و سزا کے متعلق صحیح علم

 کی ضرورت ہے۔ اور یہ علم ایسا ہونا چاہیے کہ جس پر تم کو یقین کامل یعنی ایمان حاصل ہو۔   


دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنے سخت امتحان میں نہیں ڈالا ہے کہ وہ اپنی کوشش سے یہ علم حاصل کرلے، بلکہ اس

 نے خود انسانوں ہی میں سے بعض برگزیدہ بندوں (یعنی پیغمبروں ) کو وحی کے ذریعہ سے یہ علم عطا کیا اور ان کو حکم دیا کہ

 دوسرے بندوں تک اس علم کو پہنچادیں ۔


تیسرے یہ کہ عام انسانوں پر اب صرف اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کے سچے پیغمبروں کو پہچانیں ۔ جب ان کو معلوم ہوجائے کہ

 فلاں شخص حقیقت میں خدا کا سچا پیغمبر ہے ، تو ان کا فرض ہے کہ وہ جو کچھ تعلیم دے اس پر ایمان لائیں اور جو کچھ وہ حکم

 دے اس کو تسلیم کریں اور جس طریقہ پر وہ چلے اس کی پیروی کریں ۔ اب سب سے پہلے ہم تمہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ

 پیغمبری کی حقیقت کیا ہے؟ اور پیغمبروں کو پہچاننے کی صورت کیا ہے؟


پیغمبری کی حقیقت


تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں انسان کو جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اللہ نے ان سب کا انتظام خود ہی کردیا ہے۔ بچہ جب

 پیدا ہوتا ہے تو دیکھو کتنا سامان اس کو دے کر دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ دیکھنے کے لیے آنکھیں ، سننے کے لیے کان، سونگھنے اور

 سانس لینے کے لیے ناک، محسوس کرنے کے لیے سارے جسم کی کھال میں قوت لامسہ، چلنے کے لیے پاؤں ،کام کرنے کے لیے

 ہاتھ، سوچنے کے لیے دماغ اور ایسی ہی بے شمار دوسری چیزیں جو پہلے سے اس کی سب ضرورتوں کا لحاظ کرکے اس کے

 چھوٹے سے جسم میں لپیٹ کر رکھ دی گئی ہیں ۔


 پھر جب وہ دنیا میں قدم رکھتا ہے تو زندگی بسر کرنے کے لیے اتنا سامان اس کو ملتا ہے جس کو تم شمار بھی نہیں کرسکتے۔ ہوا

 ہے، روشنی ہے، حرارت ہے، پانی ہے، زمین ہے، ماں کے سینے میں دودھ پہلےسے موجود ہے، ماں اور باپ اور عزیزوں حتی کہ

 غیروں کے دلوں میں اس کی محبت اور شفقت پیدا کردی گئی ہے جس سے اس کو پالا پوسا جاتا ہے۔ پھر جتنا جتنا وہ بڑھتا جاتا

 ہے اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیےہر قسم کاسامان اس کو ملتا جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا زمین و آسمان کی

 ساری قوتیں اس کی پرورش اور خدمت کے لیے کام کڑہی ہیں ۔


اس کے بعد اور آگے بڑھو۔دنیام میں کام کرنے کے لیے جتنی قابلیتوں کی ضرورت ہے وہ سب انسان کو دی گئی ہیں ۔ جسمانی

 قوت، عقل، سمجھ بوجھ، گویائی اور ایسی ہی بہت سی قابلیتیں تھوڑی یا بہت ہر انسان میں موجود ہیں ۔ لیکن یہاں اللہ تعالی

 نے عجیب انتظام کیا ہے۔ ساری قابلیتیں سب انسانوں کو یکساں نہیں دی۔


 اگر ایسا ہوتا تو کوئی کسی کا محتاج نہ ہوتا۔نہ کوئی کسی کی پروا کرتا۔ اس لیے اللہ نے تمام انسانوں کی مجموعی ضرورتوں کے لحاظ

 سے سب قابلیتیں پیدا تو انسانوں ہی میں کیں ۔ مگر اس طرح کہ کسی کو ایک قابلیت زیادہ دے دی اور دوسرے کو دوسری

 قابلیت۔ تو دیکھتے ہو کہ بعض لوگ جسمانی محنت کی قوتیں دوسروں سے زیادہ لے کر آتے ہیں ۔


 بعض لوگوں میں کسی خاص ہنر یا پیشہ کی پیدائشی قابلیت ہوتی ہے جس سے دوسرے محروم ہوتے ہیں ۔ اور بعض لوگوں میں

 ذہانت اور عقل کی قوت دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ بعض پیدائشی سپہ سالار ہوتے ہیں ۔ بعض میں حکمرانی کی خاص قابلیت

 ہوتی ہے۔ بعض تقریر کی غیر معمولی قوت لے کر پیدا ہوتے ہیں ۔


 بعض میں انشا پردازی کا فطری ملکہ ہوتا ہے۔ کوئی ایسا شخص پیدا ہوتا ہے کہ اس کا دماغ ریاضی میں خوب لڑتا ہے حتی کہ اس

 فن کے بڑے بڑے پیچیدہ سوالات اس طرح حل کردیتا ہے کہ دوسروں کے ذہن وہاں تک نہیں پہنچتے۔ ایک دوسرا شخص ایسا

 ہوتا ہےجو عجیب عجیب چیزیں ایجاد کرتا ہے اور اس کی ایجادوں کو دیکھ کر دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔


 ایک اور شخص ایسا بے نظیر قانونی دماغ لے کر آتا ہے کہ قانون کے جو نکتے برسوں غور کرنے کے بعد بھی دوسروں کی سمجھ میں

 نہیں آنے، اس کی نظر خودبخود ان تک پہنچ جاتی ہے، یہ خدا کی دین ہے، کوئی شخص اپنے اندر خود یہ قابلیتیں پیدا نہیں کرسکتا، نہ

 تعلیم و تربیت سے یہ چیزیں پیدا ہوتی ہیں ۔ دراصل یہ پیدائشی قابلیتیں ہیں اور خدا اپنی حکمت سے جس کو یہ قابلیت چاہتا ہے

 عطا کردیتا ہے۔


خدا کی اس بخشش پر بھی غور کروگے تو تم کو معلوم ہوگا کہ انسانی تمدن کے لیے جن قابلیتوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، وہ

 زیادہ انسانوں میں پیدا کی جاتی ہیں اور جن کی ضرورت جس قدر کم ہوتی ہے، وہ اسی قدر کم آدمیوں میں پیدا کی جاتی ہیں ۔

 سپاہی بہت پیدا ہوتے ہیں ۔ کسان اور بڑھئی اور لوہار اور ایسے ہی دوسرے کاموں کے آدمی کثرت سے پیدا ہوتے ہیں ۔


 مگر علمی و دماغی قوتیں رکھنے والے اور سیاست اور سپہ سالاری کی قابلیتیں رکھنے والے کم پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر وہ لوگ اور بھی

 زیادہ کم یاب ہوتے ہیں جو کسی خاص فن میں غیر معمولی قابلیت کے مالک ہوں ، کیوں کہ ان کے کارنامے صدیوں کے لیے

 انسانوں کو اپنے جیسے ماہر فن کی ضرورت سے بے نیاز کردیتے ہیں ۔


اب سوچنا چاہیے کہ دنیا میں انسانی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے صرف یہی ایک ضرورت تو نہیں ہے کہ انسانوں میں انجنیر

 ریاضی داں ، سائنس داں ، قانون داں ، سیاست کے ماہر، معاشیات کے باکمال اور مختلف پیشوں کی قابلیت رکھنے والے لوگ

 ہی پیدا ہوں ۔ ان سب سے بڑھ کر ایک اور ضرورت بھی تو ہے، اور وہ یہ کہ کوئی ایسا ہو جو انسان کو خدا کا راستہ بتائے۔

دوسرے لوگ تو صرف یہ بتانے والے ہیں کہ اس دنیا میں انسان کے لیے کیا ہے اور اس کو کس کس طرح برتا جاسکتا ہے۔


 مگر کوئی یہ بتانے والا بھی تو ہونا چاہیے کہ انسان خود کس کےلیے ہے؟ اور انسان کو دنیا میں یہ سب سامان کس نے دیا ہے؟

 اور اس دینے والے کی مرضی کیا ہے؟ تاکہ انسان اسی کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرکے یقینی اور دائمی کامیابی حاصل کرے۔

 یہ انسان کی اصلی اور سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اور عقل یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ جس خدا نے ہماری چھوٹی سے

 چھوٹی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کیا ہے اس نے ایسی اہم ضرورت کو پورا کرنے سے غفلت برتی ہوگی۔


 نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ خدا نے جس طرح ایک ایک ہنر اور ایک ایک علم و فن کی خاص قابلیت رکھنے والے انسان پیدا کیے

 ہیں ۔ اسی طرح ایسے انسان بھی پیدا کیے ہین جن میں خود خدا کے پہچاننے کی اعلی قابلیت تھی۔ اس نے ان کو دین اور

 اخلاق اور شریعت کاعلم اپنے پاس سے عطا کیا ، اور ان کو اس خدمت پر مقڑ کیا کہ دوسرے لوگوں کو ان چیزوں کی تعلیم دیں ۔

 یہی وہ لوگ ہیں جن کو ہماری زبان میں نبی یا رسول یا پیغمبر کہا جاتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments