پیغمبروں پر ایمان لانے کی ضرورت
جب تمہیں معلوم ہوگیا کہ اسلام کا سچا اور سیدھا راستہ وہی ہے جو خدا کی طرف سے خدا کا پیغمبر بتائے،تو یہ بات تم خود سمجھ
سکتے ہو کہ پیغمبر پر ایمان لانا اور اس کی اطاعت اور پیروی کرنا ، تمام انسانوں کے لیے ضروری ہے اور جو شخص پیغمبر کے
طریقے کو چھوڑ کر خود اپنی عقل سے کوئی طریقہ نکالتا ہے وہ یقیناً گمراہ ہے۔
اس معاملے میں لوگ عجیب عجیب غلطیاں کرتے ہیں ۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو پیغمبر کی صداقت کو تسلیم کرتے ہیں ، مگر نہ
اس پر ایمان لاتے ہیں ، نہ اس کی پیروی قبول کرتے ہیں ۔ یہ صرف کافر ہی نہیں ، احمق بھی ہیں ۔کیونکہ پیغمبر کو سچا پیغمبر
ماننے کے بعد اس کی پیروی نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جان بوجھ کر جھوٹ کی پیروی کرے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ
کر کوئی حماقت نہیں ہوسکتی۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں پیغمبر کی پیروی کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ ہم خود اپنی عقل سے حق کا راستہ معلوم کرلیں گے، یہ
بھی سخت غلطی ہے۔ تم نے ریاضی پڑھی ہے اور تم یہ جانتے ہو کہ ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک سیدھا خط صرف ایک ہی
ہوسکتا ہے، اس کے سوا جتنے بھی خط کھینچے جائیں گے وہ سب یا تو ٹیڑھے ہوں گے یا اس دوسرے نقطہ تک نہ پہنچیں گے۔
ایسی ہی کیفیت حق کے راستے کی بھی ہے جس کو اسلام کی زبان میں صراط مستقیم (یعنی سیدھا راستہ) کہا جاتا ہے۔ یہ راستہ
انسان سے شروع ہوکر خدا تک جاتا ہے اور ریاضی کے اسی قاعدے کے مطابق یہ بھی ایک ہی راستہ ہوسکتا ہے۔ اس کے سوا
جتنے راستے بھی ہوں گے یا تو ٹیڑھے ہوں گے یا خدا تک نہ پہنچیں گے۔
اب غور کرو کہ جو سیدھا راستہ ہے وہ تو پیغمبر نے بتادیا اور اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ صراط مستقیم ہے ہی نہیں ۔ اس
راستہ کو چھوڑ کر جو شخص خود کوئی راستہ تلاش کرے گا اس کو دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت ضرور پیش آئے گی یا تو
اس کو خدا تک پہنچنے کا کوئی راستہ ملے گا ہی نہیں یا اگر ملا بھی تو بہت پھیر کا راستہ ہوگا، خط مستقیم نہ ہوگا بلکہ خط منحنی
ہوگا۔
پہلی صورت میں تو اس کی تباہی ظاہر ہے۔ رہی دوسری صورت ، تو اس کے بھی حماقت ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا۔
ایک بے عقل جانور بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے خط منحنی کو چھوڑ کر خط مستقیم ہی کو اختیار کرتا ہے۔ پھر
اس انسان کو تم کیا کہوگے جس کو خدا کا ایک نیک بندہ سیدھا راستہ دکھائے اور وہ کہے کہ نہیں ، میں تیرے بتائے ہوئے راستے
پر نہیں چلوں گا، بلکہ خود ٹیڑھے راستے پر بھٹک بھٹکا کر منزل مقصود تلاش کرلوں گا۔
یو تو وہ بات ہےجو سرسری نظر میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے، لیکن اگرتم زیادہ غور کرکے دیکھوگے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ جو
شخص پیغمبر پر ایمان لانے سے انکار کرتا ہے، اس کو خدا تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں مل سکتا۔ نہ ٹیڑھا نہ سیدھا۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ جو شخص سچے آدمی کی بات ماننے سے انکار کرتا ہے اس کے دماغ میں ضرور کوئی ایسی خرابی ہوگی جس کے سبب وہ
سچائی سے منہ موڑتا ہے۔
یا تو اس کی سمجھ بوجھ ناقص ہوگی یا اس کے دل میں تکبر ہوگا یا اس کی طبیعت ایسی ٹیڑھی ہوگی کہ وہ نیکی اور صداقت کی باتوں
کو قبول کرنے پر آمادہ ہی نہ ہوگی یا وہ باپ دادا کی اندھی تقلید میں گرفتار ہوگا اور جو غلط باتیں رسم کے طور پر پہلے سے چلی آتی
ہیں ، ان کے خلاف کسی کی بات ماننے پر تیار نہ ہوگا یا وہ اپنی خواہشات کا بندہ ہوگا اور پیغمبر کی تعلیم کو ماننے سے اس لیے انکار
کرے گا کہ اس کے مان لینے کے بعد گناہوں اور ناجائز باتوں کی آزادی باقی نہیں رہتی۔
یہ تمام اسباب ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک سبب بھی کسی شخص میں موجود ہو تو اس کو خدا کا راستہ ملنا غیر ممکن
ہے۔ اور اگر کوئی سبب بھی موجود نہ ہو تو یہ ناممکن ہے کہ ایک سچا غیر متعصب اور نیک آدمی ایک سچے پیغمبر کی تعلیم قبول
کرنے سے انکار کردے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پیغمبر خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ہوتا ہے۔ اور خدا ہی کا یہ حکم ہے کہ اس پر ایمان لاؤ اور اس کی
اطاعت کرو ، اب جو کوئی پیغمبر پر ایمان نہیں لاتا وہ خدا کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔ دیکھو، تم جس سلطلت کی رعیت ہو اس
کی طرف جو حاکم بھی مقڑ ہوگا تمہیں اس کی اطاعت کرنی پڑے گی۔
اگر تم اس کو حاکم تسلیم کرنےسے انکار کروگے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم نے خود سلطنت کے خلاف بغاوت کی ہے۔
سلطنت کو ماننا اور اس کے مقڑ کئے ہوئے حاکم کو نہ ماننا دونوں بالکل متضاد باتیں ہیں ۔ ایسی ہی مثال خدا اور اس کے بھیجے
ہوئے پیغمبر کی بھی ہے۔ خدا تمام انسانوں کا حقیقی بادشاہ ہے۔
جس شخص کو اس نے انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا ہو اور جس کی اطاعت کا حکم دیا ہو، ہر انسان کا فرض ہے کہ اس کو پیغمبر
تسلیم کرے اور ہر دوسری چیز کی پیروی چھوڑ کر صرف اسی کی پیروی اختیار کرے۔ اس سے منہ موڑنے والا بہرحال کافر ہے
خواہ وہ خدا کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔
0 Comments