window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);} gtag('js', new Date()); gtag('config', 'G-V5HY947VFK'); A Brief History Of Prophethood - پیغمبری کی مختصر تاریخ

Header Display

A Brief History Of Prophethood - پیغمبری کی مختصر تاریخ

پیغمبری کی مختصر تاریخ


 پیغمبری کی مختصر تاریخ  


 نوع انسانی میں پیغمبری کا سلسلہ کس طرح شروع ہوا اور کس طرح ترقی کرتے کرتے ایک آخری  اور سب سے بڑے پیغمبر  پر ختم ہوا۔

تم نے سنا ہوگا کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے ایک انسان کو پیدا کیا ۔ پھر اسی انسان سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور اس جوڑے کی

 نسل چلائی، جو بے شمار صدیوں سے پھیلتے پھیلتے تمام روئے زمین پر چھا گئی۔دنیا میں جتنے انسان بھی پیدا ہوئے ہیں وہ سب

 اسی ایک جوڑے کی اولاد ہیں ۔


 تمام قوموں کی مذہبی اور تاریخی روایات متفق ہیں کہ نوع انسانی کی ابتدا ایک ہی انسان سے ہوئی ہے۔ سائنس کی تحقیقات

 سے بھی ثابت نہیں ہوا کہ زمین کے مختلف حصوں میں الگ الگ انسان بنائے گئے تھے، بلکہ سائنس کے اکثر علماء بھی یہی

 قیاس کرتے ہیں کہ پہلے ایک ہی انسان پیدا ہواہوگا۔اور انسان کی موجودہ نسل دنیامیں جہاں کہیں بھی پائی جاتی ہے اسی ایک

 شخص کی اولاد ہے۔


ہماری زبان میں اس پہلے انسان کو آدم کہتے ہیں ، اسی سے لفظ آدمی نکلا ہے جو انسان کا ہم معنی ہے۔ اللہ تعالی نےسب سے

 پہلا پیغمبرحضرت آدم ہی کو بنایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ اپنی اولاد کو اسلام کی تعلیم دیں ، یعنی ان کو یہ بتائیں کہ تمہارا اور تمہارا

 اور تمام دنیا کا خدا ایک ہے۔اسی کی تم عبادت کرو، اسی کے آگے سرجھکاؤ، اسی سے مڈ مانگو اور اسی کی مرضی کے مطابق دنیا میں

 نیکی اور انصاف کی زندگی بسر کرو۔ اگر تم ایسا کروگے تو تم کو اچھا انعام ملے گا اور اگر اس کی اطاعت سے منہ موڑوگے تو بڑی

 سزا پاؤگے۔



حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں جو لوگ اچھے تھے وہ باپ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلتے ہے، مگر جو لوگ برے تھے

 انھوں نے اسے چھوڑدیا۔رفتہ رفتہ ہر قسم کی برائیاں پیدا ہوگئیں ۔ کسی نے سورج اور چاند اور تاروں کو پوچنا شروع کردیا۔

 کسی نے درختوں اور جانوروں اور دریاؤں کی پرستش شروع کردی، کسی نے خیال کیا کہ ہوا اور پانی اور آگ اور بیماری و تندرستی

 اور قدرت کی دوسری نعمتوں اور قوتوں کے خدا الگ الگ ہیں ۔



 ہر ایک کی پرستش کرنی چاہیے تاکہ سب خوش ہوکر ہم پر مہربان ہوں ۔ اسی طرح جہالت کی وجہ سے شرک اور بت پرستی کی

 بہت سی صورتیں پیدا ہوگئیں جن سے بیسیوں مذہب نکل آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ حضرت آدم کی نسل دنیا کے مختلف حصوں

 میں پھیل چکی تھی، مختلف قومیں بن گئی تھیں ، ہر قوم نے اپنا ایک نیا مذہب بنالیا ۔ہر قوم نے اپنا ایک مذہب نیا مذہب بنالیا

 تھا اور ہر ایک کی رسمیں الگ تھیں ۔


 خدا کو بھولنے کے ساتھ لوگ اس قانون کو بھی بھول گئے تھے جو حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو سکھایا تھا۔ لوگوں نے

 خود اپنی خواہشات کی پیروی شروع کردی ، ہر قسم کی بری رسمیں پیدا ہوئیں ، ہر قسم کے جاہلانہ خیالات پھیلے، اچھے اور برے

 کی تمیز میں غلطیاں کی گئیں ، بہت سی بری چیزیں اچھی سمجھ لی گئیں اور بہت سی اچھی چیزوں کو برا ٹھیرالیا گیا۔



اب اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں پیغمبر بھیجنے شروع کیے جو لوگوں کو اسی اسلام کی تعلیم دینے لگے جس کی تعلیم اول اول حضرت

 آدم علیہ السلام نے انسانوں کو دی تھی۔ ان پیغمبروں نے اپنی اپنی قوموں کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ انہیں ایک خدا کی پرستش

 سکھائی، شرک اور بت پرستی سے روکا، جاہلانہ رسموں کو توڑا، خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا طریقہ بتایا اور صحیح قوانین بتا

 کر ان کی پیروی کی ہدایت کی۔    



 ہندوستان، چین، عراق، ایران، مصر، افریقہ، یورپ، غرض دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں خدا کی طرف سے اس کے سچے

 پیغمبر نہ ہوئے ہوں ۔ ان سب کا مذہب ایک ہی تھا اور وہ یہی مذہب تھا جس کو ہم اپنی زبان میں اسلام کہتے ہیں ۔البتہ تعلیم

 کے طریقے اور زندگی کے قوانین ذرا مختلف تھے۔  


 ہر قوم میں جس قسم کی جہالت پھیلی ہوئی تھی اسی کو دور کرنے پر زور دیا گیا۔ جس قسم کے غلط خیالات رائج تھے، انہی کی

 اصلاح پر زیادہ توجہ صرف کی گئی۔ تہذیب و تمدن اور علم و عقل کے لحاظ سے جب قومیں ابتدائی درجہ میں تھیں تو ان کو

 سادہ تعلیم اور سادہ شریعت دی گئی۔ جیسی جیسی ترقی ہوتی گئی تعلیم اور شریعت کو بھی وسیع کیا جاتا رہا۔


 مگر یہ اختلافات صرف ظاہری شکل کے تھے، روح سب کی ایک تھی۔ یعنی اعتقادمیں توحید ، اعمال نیکی و سلامت روی اور 

  آخرت کی جزا و سزا پر یقین۔

پیغمبروں کے ساتھ بھی انسان نے عجیب معاملہ کیا۔ پہلے تو ان کو تکلیفیں دی گئیں ، ان کی ہدایت کو ماننے سے انکار کردیا گیا،

 کسی کو وطن سے نکالا گیا، کسی کو قتل کیا گيا، کسی کو عمر بھر کی تعلیم و تلقین کے بعد مشکل سے پانچ دس پیرو میسر آسکے۔ مگر

 خدا کے برگزیدہ بندے برابر اپنا کام کیے چلے گئے، یہاں تک کہ ان کی تعلیمات نے اثر کیا اور بڑی بڑی قومیں ان کی پیرو بن گئیں

  اس کے بعد گمراہی نے دوسری صورت اختیار کی۔

 پیغمبروں کی وفات کے بعد ان کی امتوں نے ان کی تعلیمات کو بدل ڈالا، ان کی کتابوں میں اپنی طرف سے ہر قسم کے خیالات

 ملادیے، عبادتوں کے نئے نئے طریقے اختیار کیے ۔ بعضوں نے خود پیغمبروں کی پرستش شروع کردی، کسی نے اپنے پیغمبر کو خدا کا

 اوتار قرار دیا(یعنی یہ کہ خدا خود انسان کی صورت میں اتر آیا تھا) کسی نے اپنے اپنے پیغمبر کو خدا کا بیٹا کہا۔


 کسی نے اپنے پیغمبر کو خدائی میں شریک ٹھیرایا۔ غرض انسان نے عجیب ستم ظریفی کی کہ جن لوگوں نے بتوں کو توڑا تھا، انسان

 نے خود ان ہی کو بت بنالیا۔ پھر جو شریعتیں یہ پیغمبر اپنی امتوں کو دے گئے تھے ان کو بھی طرح طرح سے بگاڑا گیا، ان میں ہر

 قسم کی جاہلانہ رسمیں ملادی گئیں ، افسانوں اور جھوٹی رویتوں کی آمیزش کردی گئی، انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو ان کے

 ساتھ خلط ملط کردیا گیا۔

 یہاں تک کہ چند صدیوں کے بعد یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہا کہ پیغمبر کی اصلی تعلیم اور اصلی شریعت کیا تھی، اور بعد

 والوں نے اس میں کیا کیا ملادیا۔ خود پیغمبروں کی زندگی کے حالات بھی روایتوں میں ایسے گم ہوگئے ہیں کہ ان کے متعلق کوئی

 چیز بھی قابل اعتبار نہ رہی۔ تاہم پیغمبروں کی کوششیں سب کی سب رائگاں نہیں گئیں ۔ تمام ملاوٹوں کے باوجود کچھ نہ کچھ

 اصل صداقت ہر قوم میں باقی رہ گئی۔خدا کا خیال اور آخرت کی زندگی کا خیال کسی نہ کسی صورت میں تمام قوموں کے اندر

 پھیل گیا۔ نیکی اور صداقت اور اخلاق کے چند اصول عام طور پر دنیا میں تعلیم کرلیے گئے اور تمام قوموں کے پیغمبروں نے

 الگ الگ ایک ایک قوم کو اس حد تک تیار کردیا کہ دنیا میں ایک ایسے مذہب کی تعلیم پھیلائی جاسکے جو بلا امتیاز ساری نوع

 انسانی کا مذہب ہے۔


جیسا کہ ہم نے تم کو اوپر بتایا ہے کہ ابتداءً ہر قوم میں الگ الگ پیغمبر آتے تھے اور ان کی تعلیم ان کی قوم ہی کے اندر محدود

 رہتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت سب قومیں ایک دوسرے سے الگ تھیں ، ان کے درمیاں زیادہ میل جول نہ

 تھا، ہر قوم اپنے وطن کے حدود میں گویا مقید تھی۔ ایسی حالت میں کوئی عام اور مشترک تعلیم تمام قوموں میں پھیلنی بہت

 مشکل تھی۔اس کے علاوہ مختلف قوموں کے حالات ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ جہالت زیادہ بڑھی ہوئی تھی۔اس

 جہالت کی بدولت اعتقاد اور اخلاق کی جو خرابیاں پیدا ہوئی تھیں ، ہر جگہ مختلف صورت کی تھیں ۔ 


اس لیے ضروری تھا کہ خدا کے پیغمبر ہر قوم کو الگ الگ تعلیم و ہدایت دیں ۔ آہستہ آہستہ غلط خیالات کو مٹا کر صحیح خیالات کو

 پھیلائیں ۔ رفتہ رفتہ جاہلانہ طریقوں کو چھوڑ کر اعلی درجہ کے قوانین کی پیروی سکھائیں اور اس طرح ان کی تربیت کریں جیسے

 بچوں کی کی جاتی ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس طریقہ سے قوموں کی تعلیم میں کتنے ہزار برس صرف ہوئے ہوں گے۔بہرحال ترقی

 کرتے کرتے آخرکار وہ وقت آیا جب نوع انسانی بچپن کی حالت سے گزر کر سنّ بلوغ کو پہنچنے لگی۔ تجارت و صنعت و حرفت

 کی ترقی کے ساتھ ساتھ قوموں کے تعلقات ایک دوسرے سے قائم ہوگئے۔   


 چین و جاپان سے لے کر یورپ اور افریقہ کے دور دراز ملکوں تک جہاز رانی اور خشکی کے سفروں کا سلسلہ قائم ہوگیا۔اکثر قوموں

 میں تحریر کا رواج ہوا۔ علوم و فنون پھیلے اور قوموں کے درمیان خیالات اور علمی مضامین کا تبادلہ ہونے لگا۔ بڑے بڑے فاتح

 پیدا ہوئے اور انہوں نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کرکے کئی کئی ملکوں اور کئی کئی قوموں کو ایک سیاسی نظام میں ملادیا۔ اس

 طرح وہ دوری اور جدائی جو پہلے انسانی قوموں میں پائی جاتی تھی ، رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی اور یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کی ایک

 ہی تعلیم اور ایک ہی شرعیت تمام دنیا کے لیے بھیجی جائے۔


 اب سے ڈھائی ہزار برس پہلے انسان کی حالت اس حد تک ترقی کرچکی تھی کہ گویا وہ خود ہی ایک مشترک مذہب مانگ رہا تھا۔

 بودھ مت اگرچہ کوئی پورا مذہب نہ تھا اور اس میں محض چند اخلاقی اصول ہی تھے مگر ہندوستان سے نکل کر وہ ایک طرف

 جاپان اور منگولیا تک اور دوسری طرف افغانستان اور بخارا تک پھیل گیا اور اس کی تبلیغ کرنے والے دور دور ملکوں تک

 جاپہنچے۔


 اس کے چند صدی بعد عیسائی مذہب پیدا ہوا، اگرچہ حضرت عیسی علیہ السلام اسلام کی تعلیم لے کر آئے تھےمگر ان کے بعد

 عیسائیت کے نام سے ایک ناقص مذہب بنالیا گیا۔ اور عیسائیوں نے اس مذہب کو ایران سے لے کر افریقہ اور افریقہ سے دور دراز

 ملکوں میں پھیلادیا۔


یہ واقعات بتارہے ہیں کہ اس وقت دنیا خود ایک عام انسانی مذہب مانگ رہی تھی اور اس کے لیے یہاں تک تیار ہوگئی تھی کہ

 جب اسے کوئی پورا اور صحیح مذہب نہ ملا تو اس نے کچے اور ناتمام مذہبوں ہی کو انسانی قوموں میں پھیلانا شروع کردیا۔ 



Post a Comment

0 Comments