window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);} gtag('js', new Date()); gtag('config', 'G-V5HY947VFK'); Obedience Requires Knowledge And Belief - اطاعت کے لیے علم اور یقین کی ضرورت

Header Display

Obedience Requires Knowledge And Belief - اطاعت کے لیے علم اور یقین کی ضرورت

اطاعت کے لیے علم اور یقین کی ضرورت


 اطاعت کے لیے علم اور یقین کی ضرورت


اسلام دراصل پروردگار کی اطاعت کا نام ہے۔ انسان اللہ تعالی کی اطاعت اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک اسے چند باتوں کو علم نہ ہو اور وہ علم یقین کی حد تک پہنچا ہوا نہ ہو۔

سب سے پہلے تو انسان کو خدا کی ہستی کا پورا یقین ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر اسے یہی یقین نہ ہو کہ خدا ہے، تو وہ اس کی اطاعت

 کیسے کرے گا۔   

اس کے ساتھ خدا کی صفات کا علم بھی ضروری ہے۔ جس شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ خدا ایک ہے اور خدائی میں کوئی اس کا

 شریک نہیں ، وہ دوسروں کے سامنےسرجھکانے اور ہاتھ پھیلانے سے کیونکر بچ سکتا ہے؟

 جس شخص کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ خدا سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے ، اور ہر چیز کی خبر رکھتا ہے، وہ اپنے آپ کو خدا

 کی نافرمانی سے کیسے روک سکتا ہے؟   


اس بات پر جب تم غور کروگے تو ، تم کو معلوم ہوگا کہ خیالات اور اخلاق اور اعمال میں اسلام کے راستے پر چلنے کے

 لیےانسان میں جن صفات کا ہونا ضروری ہے وہ صفات اس وقت تک اس میں پیدا نہیں ہوسکتیں جب تک اس کو خدا کی

 صفات کا ٹھیک ٹھیک علم نہ ہو۔

 اور یہ علم بھی محض جان لینے کی حد تک نہ رہے، بلکہ اس کو یقین کے ساتھ دل میں بیٹھ جانا چاہیے تاکہ انسان کا دل اس کے

 مخالف خیالات سے اور اس کی زندگی اس کے علم کے خلاف عمل کرنے سے محفوظ رہے۔


اس کے بعد انسان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ کس بات کو خدا

 پسند کرتا ہے، تاکہ اسے اختیار کیاجائے، اور کس بات کو خدا ناپسند کرتا ہے تاکہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ اس غرض کے لیے

 ضروری ہے کہ انسان کو خدائی قانون اور خدائی ضابطہ سے پوری واقفیت ہو۔ 


اس کے متعلق وہ پورایقین رکھتا ہو کہ یہی خدائی قانون اور خدائی ضابطہ ہے، اور اسی کی پیروی سے خدا کی خوشنودی حاصل

 ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اگر اس کو سرے سے علم ہی نہ ہو تو وہ اطاعت کس چیز کی کرے گا؟ اور اگر علم تو ہو لیکن پورا یقین نہ

 ہو، یا دل میں یہ خیال ہو کہ اس قانون اور اس ضابطہ کے سوا دوسرا قانون اور ضابطہ بھی درست ہوسکتا ہے تو اس کی ٹھیک

 ٹھیک پابندی کیسے کرسکتا ہے؟


پھر انسان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ خدا کی مرضی کے خلاف چلنے اور اس کے پسند کئے ہوئے ضابطہ کی اطاعت نہ کرنے کا

 انجام کیا ہے اور اس کی فرماں برداری کرنے کا انعام کیا ہے۔


 اس غرض کے لیے ضروری ہے کہ اسے آخرت کی زندگی کا،خدا کی عدالت میں پیش ہونے کا ، نافرمانی کی سزا پانے کا اور فرماں

 برداری پر انعام پانے کا پورا علم اور یقین ہو۔


 جو شخص آخرت کی زندگی سے ناواقف ہے وہ اطاعت اور نافرمانی دونوں کو بے نتیجہ سمجھتا ہے۔ اس کا خیال تو یہ ہے کہ آخر

 میں اطاعت کرنے والا اور نہ کرنے والا دونوں برابر ہی رہیں گے۔ 


کیونکہ دونوں خاک ہوجائیں گے۔ پھر اس سے کیونکر امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اطاعت کی پابندیاں اور تکلیفیں برداشت کرنا قبول   

 کرلے گا۔ اور ان گناہوں سے پرہیز کرے گا جن سے اس دنیا میں کوئی نقصان پہنچنے کا اس کو اندیشہ نہیں ہے۔    


 ایسے عقیدے کے ساتھ انسان خدائی قانون کا کبھی مطیع نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح وہ شخص اطاعت میں ثابت قدم نہیں ہوسکتا

 جسے آخرت کی زندگی اور خدائی عدالت کی پیشی کا علم تو ہے مگر یقین نہیں ۔اس لئے کہ شک اور ترڈ کے ساتھ انسان کسی بات

 پر جم نہیں سکتا۔


تم ایک کام کو دل لگا کر اسی وقت کرسکوگے جب تم کو یقین ہو کہ یہ کام فائدہ بخش ہے اور دوسرے کام میں پرہیز کرنے میں

 بھی اسی وقت مستقل رہ سکتے ہو جب تمہیں پورا یقین ہو کہ یہ کام نقصان دہ ہے، لہذا معلوم ہوا کہ ایک طریقہ کی پیروی کے لئے

 اس کے انجام اور نتیجہ کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔ اور یہ علم ایسا ہونا چاہیے جو یقین کی حد تک پہنچا ہوا ہو۔

Post a Comment

0 Comments